حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 23ربیع الاول کا دن حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے شہرِ قم میں تشریف لانے کا دن ہے۔ اسی مناسبت سے حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار نے ممتاز حوزوی محقق اور مصنف جناب حجت الاسلام والمسلمین علی اکبر مہدی پور سے "شہرِ قم میں حوزہ علمیہ کے قیام میں حرمِ مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا کردار" کے عنوان پر گفتگو کی ہے۔ جس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔
جن ائمہ معصومین علیہم السلام سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں احادیث ہم تک پہنچی ہے۔ ان میں سب سے قدیم حضرت امام صادق علیہ السلام سے ہیں۔حضرت امام صادق علیہ السلام 148ھ میں شہید ہوئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت 173ھ میں ہوئی ہے یعنی حضرت امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بھی 25 سال بعد۔ پس اس بنا پر معلوم ہوا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت سے بھی کم از کم 25 سال پہلے ان کے بارے میں بشارت دی ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کی جانب سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت سے نصف صدی قبل قم میں تشریف آوری کی بشارت
اس حدیث کا راوی کہتا ہے کہ میں نے یہ حدیث حضرت امام صادق علیہ السلام سے اس وقت سنی جب حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ یعنی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت سے بھی نصف صدی قبل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ان کے قم میں تشریف آوری کی خبر دی ہے۔
سب سے مشہور حدیث جو کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے،وہ فرماتے ہیں: «وستدفن فیها امرأة من أولادی تسمّی: فاطمة، فمن زارها وجبت له الجنة»"اس شہر میں میری اولاد میں سے ایک خاتون مدفون ہون گی جن کا نام فاطمہ ہے۔ جو ان کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہے"۔
یہ روایت شیخ صدوق سے بھی بہت پہلے کی کتاب "تاریخِ قم" کے صفحہ 214 پر نقل کی گئی ہے۔ البتہ یہی روایت بحارالانوار اور دوسری کتب میں بھی مذکور ہے۔
اسی موضوع پر امام صادق علیہ السلام کی ایک اور حدیث بھی ہے جس میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: «تُقْبَضُ فِیهَا امْرَأَةٌ مِنْ وُلْدِی اسْمُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُوسَی وَ تُدْخَلُ بِشَفَاعَتِهَا» اس (شہر قم) میں میری اولاد میں سے ایک خاتون وفات پائیں گی جس کا نام فاطمہ بنت موسیٰ ابن جعفر ہے۔ اس کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے"۔
حجت الاسلام مہدی پور نے اپنے بیانات میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے قم المقدسہ میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی تشریف آوری کی جو بشارت دی ہے اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا:
انبیاء اور پیغمبروں کی کتب میں صدیوں پہلے حضرت آدم ابو البشر، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرف سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بشارت دی گئی۔ چونکہ ان کی آمد کی خبر دینا ضروری اور لازم امر تھا۔ اسی طرح حضرت بقیۃ اللہ الاعظم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے بارے میں تورات، انجیل، زبور اور دیگر انبیاء کی کتابوں میں سینکڑوں حوالہ جات آئے ہیں اور بیسیوں روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارک سے منقول ہوئی ہیں اسی طرح چونکہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ذاتِ مبارک ایک عظیم پیغام کی حامل اور حوزہ علمیہ کے وجود کا محور قرار پانا تھیں لہذا یہی حکمت تھی کہ ان کے قم المقدسہ میں وجودِ مبارک کی بھی بشارت دی گئی۔
چونکہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ذاتِ مبارک ایک عظیم پیغام کی حامل اور حوزہ علمیہ کے وجود کا محور قرار پانا تھیں لہذا یہی حکمت تھی کہ ان کے قم المقدسہ میں وجودِ مبارک کی بھی بشارت دی گئی۔
انہوں نے کہا: بعض احادیث میں قم کے بارے میں آیا ہے کہ « فَیَفیضُ العِلمُ مِنهُ إلی سائرِ البلادِ» "اسی شہر (قم) سے پوری دنیا میں علم پھیلے گا"۔ اسی طرح اہل قم کے بارے میں بحارالانوار میں 40 سے زیادہ احادیث موجود ہیں۔
اس ممتاز حوزوی محقق اور مصنف نے کہا: حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی محوریت اور برکت سے ہی حوزہ علمیہ قم کا قیام عمل میں آیا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ محدّثین حرم مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے گرد جمع ہوئے اور کسبِ فیض کیا اور بعد ازاں مرحوم آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی محوریت میں حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھی اور آیت اللہ بروجردی شہر بروجرد سے قم تشریف لائے اور حوزہ علمیہ کو فروغ دیا اور قم سے کئی نمائندوں کو جرمنی، امریکہ اور دیگر ممالک میں بھیجا۔
لہٰذا آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ حضرت امام صادق اور دیگر معصومین علیہم السلام نے قم کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ آج ظہور پذیر ہوا ہے اور تمام براعظموں میں ہزاروں مختلف مکاتب، مدارس، حسینیہ اور مساجد قائم ہو چکی ہیں اور بحمد اللہ ہر جگہ حوزہ علمیہ قم کے طلباء اور شاگردوں کے توسط سے "قال الباقر، قال الصادق" کی صدائیں گونج رہی ہیں۔